अरशद नदीम का इतिहास
سونے جیسے ہاتھ
ارشد ندیم کا والد راج (مستری) تھا۔ اسکول سے واپسی پر ارشد ان کے ساتھ مزدوری کرتا تھا۔ اینٹیں اٹھاتا تھا۔
گارا پکڑاتا تھا۔
بعد میں کھیتوں میں بھی کام کرتا تھا۔
ایک دن ارشد نیچے سے اوپر اینٹیں پھینک رہا تھا۔ راج کو بہت سارے مزدور ایسے ہی اینٹیں پہنچاتے ہیں۔
ارشد کو اینٹیں پھینکتے ہوئے کسی سیانے نے ایک دن دیکھ لیا۔
اس نے کہا کاکا تم تو اینٹیں ایسے اوپر پھینک رہے ہو جیسے ان کا کوئی وزن ہی نہ ہو۔
اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی نے تمارے بازوؤں میں بہت طاقت دی ہی۔
پوچھا کہ کوئی گیم کھیلتے ہو؟ بتایا کہ کرکٹ کھیلتا ہوں۔ کہا کہ تم کرکٹ چھوڑ کر جیولین پھینکا کرو۔ بہت نام بناؤ گا۔
یہ تھی وہ نصیحت، خیر اور بھلائی کی وہ بات جس نے ارشد کی زندگی کا رخ موڑ دیا۔
اس کے بعد ارشد ندیم نے گاؤں والوں سے پیسے اکٹھے کرکے جیولین جیسی کوئی چیز بنا کر پھینکنا شروع کی۔ پریکٹس اسٹارٹ کردی۔
اولمپکس شروع ہونے سے چند ماہ پہلے بھی نہ ارشد ندیم کے پاس کوئی ٹرینگ کے لئے خاص جگہ تھی اور نہ اچھا جیولین تھا۔ ایک جیولین بڑی مشکل سے چندہ اکٹھا کر کے لیا تھا۔
جب کہ انڈیا کے نیرج چوپڑا کے پاس 177 جیولین تھے۔ دنیا کے بہترین کوچز تھے۔ اور کئی ملکوں میں اس نے ٹرینگ کی تھی۔ بھارتی حکومت نے اس کی تربیت پر کروڑوں روپے خرچ کئے۔ کیونکہ بھارتی سرکار کے خزانے میں پیسے ہیں۔ وہاں پاکستان کی طرح وسائل پر چند گروہ قابض نہيں ہیں۔ وہ خزانہ ہڑپ نہيں کر جاتے۔
اور دوسری طرف ہمارے جو بےشرم حکمران اب ارشد ندیم کے عظیم کارنامے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر ریے ہیں وہ اسے ٹرینگ کے لئے ایک جیولین تک خرید کر نہ دے سکے۔ اسے اچھی خوراک نہ دیکھ سکے۔ اس کی غربت کو کم نہ کر سکے۔
یہ تو ایک مزدور باپ کے مزدور بیٹے کے ہاتھ تھے جو پیرس اولمپکس سے سونے کا میڈل دنیا سے چھین کر آئے ورنہ ہمارے ظلم کے نظام نے تو ارشد کو فیل کردیا تھا۔
پتہ نہيں اور کتنے ارشد اس نظام نے ستارے بننے سے پہلے ہی نگل لئے۔
Comments